ایک دفعہ ایک عیسائی بادشاہ نے چند سوالات لکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجے اور ان کے جوابات آسمانی کتابوں کی رُو سے دینے کا مطالبہ کیا۔ ان میں سے ایک سوال تھا کہ ’’دنیا میں وہ کون سی جگہ ہے، جہاں آغاز سے لے کر قیامت تک صرف
ایک دفعہ سورج کی کرنیں پڑیں، نہ پہلے کبھی وہاں پڑیں تھیں نہ آئندہ کبھی پڑیں گی؟حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو فرمایا کہان سوالات کے جوابات لکھ دیں۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہنے اس سوال کا جواب تحریر فرمایا۔ ’’وہ زمین سمندر کی کھاڑی قلزم کی تہہ ہے کہ جہاں فرعون مردود غرق ہوا تھا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے معجزے سے دریا خشک ہوا تھا۔
حکم الٰہی سے سورج نے بہت جلد سکھایا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام مع اپنی قوم بنی اسرائیل پار چلے گئے اور جب فرعون اور اس کا لشکر داخل ہوا تو وہ غرق ہوگیا اس زمین پر سورج ایک دفعہ لگا پھر قیامت تک کبھی بھی نہیں لگے گا۔قرآن پاک میں حضرت موسیٰؑ کا قصہ اس طرح بیان کیا گیا ہے۔ حضرت یعقوب علیہ السلام کی اولاد نبی اسرائیل کو مصر میں رہتے ہوئے کافی مدت گزر چکی تھی، چوں کہ باہر سے آئے ہوئے تھے، اس لیے مصری انہیں اچھی نظر سے نہیں دیکھتے تھے۔
اس زمانے میں مصر کا ہر بادشاہ فرعون کہلاتا تھا، حضرت یوسف علیہ السلام سولہویں فرعون کے زمانے میں مصر تشریف لائےاورجس زمانے کا ذکر ہم کرنے والے ہیں وہ انیسواں فرعون تھا۔ اس کا نام منفتاح بن ریمسس دوم تھا۔ فرعون نے ایک خواب دیکھا جس کی تعبیر یہ بتائی گئی کہ بنی اسرائیل کا ایک لڑکا تیری حکومت کے زوال کا باعث ہوگا اس پر فرعون نے حکم دیا کہ بنی اسرائیل میں جو لڑکا پیدا ہواس قتل کردیا جائے۔ اسی زمانے میں حضرت موسی علیہ السلام
عمران کے گھرمیں پیدا ہوائے۔ ماں باپ کو سخت پریشانی تھی اور وہ سمجھتے تھے اگر کسی کو پتا چل گیا تو اس بچے کی خیر نہیں۔ کچھ مدت تک تو ماں باپ نے اس خبر کو چھپایا، لیکن مارے پریشان کے ان کا حال برا ہورہا تھا۔ آخر خداوند کریم نے آپ کی والدہ کے دل میں یہ بات ڈال دی کہاس معصوم بچے کو صندوق میں ڈال کر درائے نیل میں بہادو۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے ایسا ہی کیا اور اپنی بڑی لڑکی کو بھیجا کہ وہ صندوق کے ساتھ ساتھ کنارے پر جائے اور دیکھے کہ خدا کس طرح اس کی حفاظت کرتا ہے۔ جب یہ صندوق تیرتا ہوا شاہی محل کے قریب پہنچا تو فرعون کے گھرانے کی عورتوں میں سے ایک اس کو دیکھ کر باہر نکلوالیا اور جب اس میں ایک خوب صورت بچے کو دیکھا تو خوش ہوئیں اور اس بچے کو محل میں لے گئیں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بہن بھی فرعون کی خادماؤں میں شامل ہوگئیں۔ فرعون کے کوئی اولاد نہ تھی۔ جب اس کی بیوی آسیہ نے ایک حسین و جمیل بچے کو دیکھا تو بہت خوش ہوئیں۔ اتنے میں فرعون بھی آگیا۔اور اس کے قتل کا حکم دے دیا۔ فرعون کی بیوی نے منت سے کہا کہ اس معصوم کو قتل نہ کرو، کوئی بڑی بات نہیں اگر یہی بچہ میری اور تیری آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بن جائے اور ہم اس کو اپنا بیٹا بنا لیں اور اگر حقیقت میں یہی وہ بچہ ہے جو تیرے خواب کی تعبیر بننے والا ہےتو ہم اس کی ایسی تربیت کریں گے کہ
ہمارے لیے نقصان رسان بننے کی بجائے مفید ہی ثابت ہو۔ اس طرح فرعون حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قتل کرنے سے باز رہا۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام فرعون کے گھر میں پل کر جوان ہوئے۔ آپ بڑے خوب صورت اور طاقتور تھے۔ ایک دن آپ شہر سے باہر جا رہے تھے کہ آپ نے دیکھا کہ ایک مصری ایک اسرائیلی کو بیگار میں لے کر تنگ کر رہا ہے۔جب حضرت موسیٰ علیہ السلام اس کے قریب سے گزرے تو اسرائیلی نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی، آپ نے مصری کو سختی اور جبر سے روکنے کی کوشش کی لیکن مصری نہ مانا۔ اس پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے غصے میں آکر مصری کے ایک ایسا طمانچہ مارا کہوہ وہیں ڈھیر ہوگیا۔ اس کی موت کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بہت رنج ہوا۔ آپ کا ہرگز یہ ارادہ نہ تھا کہ اس کو جان سے مار دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے خدا سےاس کی معافی مانگی اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو معاف کردیا۔
اگلے ہی دن پھر آپ ایک طرف سے جارہے تھے کہ وہی اسرائیلی ایک قبطی سے جھگڑ رہا ہے۔ آج پھر اس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے فریاد کی۔آپ کو اگرچہ بہت ناگوار گزرا۔ مگر آپ نے ایک طرف تو اس قبطی کو روکا اور دوسری طرف اسرائیلی کو ڈانا کہ تو ہر وقت جھگڑا مول لے کر بلاوجہ فریاد کرتا رہتا ہے، جونہی حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان کو ہٹانے کے لیے ہاتھ اٹھایا تو اس نے سمجھا کہ مجھے مارنے لگے ہیں۔ وہ چلایا، موسیٰ کل تم نےایک مصری کو مارا۔ اسی طرح آج مجھے بھی ہلاک کرنا چاہتا ہے۔
اب کیا تھا سارے شہر میں خبر مشہور ہوگئی کہ کل والے مصری کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے مارا تھا۔ فرعون نے ان کی گرفتاری کے احکام جاری کردئیے۔ اس وقت ایک آدمی فرعون کے دربار میں موجود تھا، جس کو حضرت موسیٰ علیہ السلام سے انس تھا۔ اس نے فوراً حضرت موسیٰ علیہ السلام کو جا کر سارے واقعہ کی اطلاع دیاور مشورہ دیا کہآپ فوراً یہاں سے نکل جائیں۔ چنانچہ حضرت موسیٰ علیہ السلام سے بے سرو سامان نکل کھڑے ہوئے اور منزلیں طے کرتے ہوئے مدین کے شہر جاپہنچے۔ آپ بھوک اور پیاس سے نڈھال ہورہے تھے،جب ایک کنوئیں پر پہنچے تو دیکھا کہ کنوئیں پر لوگوں کی بھیڑ لگی ہوئی ہے اور لوگ اپنے اپنے ریوڑوں کو پانی پلا رہے ہیں۔ سب سے پیچھے دو لڑکیاں اپنی بکریاں لیے کھڑی ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ان لڑکیوں سے پوچھا کہ تم کیوں اپنی بکریوں کو پانی نہیں پلاتیں۔ انہوں نے کہا ہمارا باپ ضعیف ہے۔